انسانیت


شائد آج جون کا گرم ترین دن تھا۔ صبح گھر سے نکلتے ہوئے مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ آج دھوپ کی تمازت کچھ زیادہ ہی ہے۔ راستے میں دھوپ سے جھلستا ہوا دفتر پہنچا تو کام کا ایک امبار میرا منتظر تھا۔ جیسے تیسے کام کر کے شام کو دفتر سے نکلا تو اندازہ ہوا کے موسم یکسر بدل چکا ہے۔ آسمان پر بادل بھی ہیں اور ہوا میں بھی تھوڑی ٹھنڈک ہے ایسے میں سوچا چلو تھوڑا گھومتے ہوئے ہی گھر جاتا ہوں- ملا کی دوڑ مسجد تک اور میری جناح سپر تک، سو جا پہنچا- لیمن سوڈے کا آرڈر دیا اور صحن میں لگی کرسیوں میں سے ایک پر جا بیٹھا۔ لگ رہا تھا موسم کا مزہ لینے ساری دنیا ہی گھروں سے باہر آ گئی ہے ۔ میرے آس پاس بھی کافی لوگ تھے اور بلکل سامنے کھڑی گاڑیوں میں بھی کچھ لوگ بیٹھے نظر آرہے تھے۔ میرے قریب ہی دو بچے کارٹونوں کی کتابیں لئے آپس میں اٹکیلیاں کر رہے تھے، اور کیوں نہ کرتے موسم پر ان کا بھی اتنا ہی حق تھا جتنا میرا یا کسی اور کا تھا۔ اکیلا ہونے کے ناتے اردگرد کے لوگوں کو دیکھنے کے علاوہ میرا کچھ اور کام بھی نہ تھا کہ جب تک سوڈا نہ آجاتا۔ میری توجہ بار بار انہی دو بچوں پر جا ٹہرتی ،  جو کارٹونوں کی کتابیں بیچنے کے لئے گھروں سے نکلے تھے۔ ان دونوں کی عمریں بھی ان ہی کتابوں کو پڑھنے کی ہوں گی۔ میں سوچ ہی رہا تھا کے یہ بچے میرے پاس کتابیں بیچنے کیوں نہیں آیے۔اتنے میں پاس ہی ایک چمکدار خوبصورت سفید گاڑی آکر رکی۔ سامنے والی نشست پر ایک صاحب سفید  کلف شدہ قمیض شلوار میں ملبوس براجمان تھے ، ساتھ میں یقینا ان کی بیوی ہوگی۔ ابھی دھیان ان کی گاڑی سے ہٹا نہیں تھا کے دونوں بچے میرے سامنے سے بھاگتے ہوے گاڑی کی جانب لپکے۔ مجھے میرے سوال کاجواب مل گیا تھا کہ یہ بچے میرے پاس کیوں نہیں آیے۔ گاڑی کی پچھلی نشست پر تین  بچے بھی تھے۔ یہی ان کے ممکنہ خریدار ہو سکتے تھے ،  کتابیں بیچنے والے دونوں بچے گاڑی کے شیشے سے کتابیں گاڑی میں بیٹھے ہوے بچوں کو دیکھا رہے تھے۔ شاید کارٹون سب بچوں کی کمزوری ہوتے ہیں سو وہ بھی توجہ سے ان کی جانب دیکھ رہے تھے- گاڑی چلانے والے ابّو کو شاید کتابوں سے کوئی  شغف نہیں تھا اور نہ ہی مجھے لگ رہا تھا کے وہ اپنے بچوں کے لئے کتابیں خریدیں گے۔ اتنے میں میرا لیمن سوڈا آگیا اور میرا دھیان ان بچوں سے نکل کر سوڈے میں چلا گیا۔ سوڈا بنا بھی میری مرضی کا تھا تو اور بھی مزہ آرہا تھا۔ اسہی اثنا میں مجھے زور سے بولنے کی آوازیں آئیں، جو دیکھا تو کتابیں بیچنے والا لڑکا زمین پر گرا ہوا ہے اور وہ سفید چمکدار گاڑی والا شخص بچے کو ایک تھپڑ رسید کرنے کے بعد واپس گاڑی میں بیٹھ رہا تھے۔ ایک لمحے کو مجھے سمجھ ہی نہیں آیا کہ یہ کیا ہوا ، وہ بچہ روتا ہوا اٹھ رہا تھا کہ سامنے سے ہی ایک ویٹر اس گاڑی والے سے دریافت کرنے لگا کہ کیا ماجرا ہوا۔ میرا تجسس بڑھا تو میں بھی قریب ہو گیا۔ اک لمحےمیں مجھے وہ سفید کلف میں ملبوس شخص اتنا گندا لگنے لگا کےدل چاہا کہ اس کا گریبان پکڑ لوں۔ اس بچے پر ہاتھ صرف اس لئے اٹھایا گیا تھا کہ اس نے صاف شیشے گندے کر دیے تھے ۔ وہ دونوں بچے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر نجانے کس طرف نکل گئے اور میں سوچتا ہی رہ گیا کے ایسے بھی لوگ ہیں جو انسان کو انسان نہیں سمجھتے ۔ ایسے لوگ اپنی نئی نسل کو کیا تربیت دیں گے ؟ ایسے لوگ ہمارے معاشرے کا مثبت  فعال پرزہ  بن سکتےہیں؟  یہ تو شکر ہے کے ایسے لوگ کم ہیں ورنہ ہمارا معاشرہ تو چاروں شانے چت زمین پر ڈھیر نظر آئے ۔ مجھے ایسے لوگوں سے ہمدردی بھی ہے کے یقینا ان کے ساتھ غریبوں کی بد دعائیں چلتی ہوں گی. بد نصیب !!!!!

پڑھ پڑھ کتاباں علم دیاں توں ناں رکھ لیا قاضی

ہتھ   وچ پھڑ کے تلوار توں   ناں رکھ  لیا  غازی

مکے   مدینے  گھوم  آیاں تے   ناں رکھ  لیا  حاجی

بلھے شاہ حاصل کی کیتا، جے توں یار نا رکھیا   راضی

13 responses to this post.

  1. ایسے لوگ ہمارے معاشرے میں کم نہیں ہیں۔ بلکہ ہمارا معاشرہ ایسے لوگوں سے بھرا پڑا ہے۔ تبھی تو بے حال ہے۔
    بے حسی خاصا ہے ہمارے سماج کا۔

    اچھا موضوع کلام بنایا آپ نے۔

    جواب دیں

  2. آپ کے بلاگ پر آپ کا کوئی تعارفی صفحہ نہیں ہے۔
    کچھ تعارف تو ہونا چاہیے۔
    😦

    جواب دیں

  3. عمران صا حب – شعروں کا انتخاب مضمون سے اچھی مناسبت رکھتا ھے – آخری جملہ-” انکے ساتھ غریبوں کی بد دعائیں چلتی ھونگی- ” اچھا ھے- شکریہ

    جواب دیں

  4. Posted by ہیلو۔ہائے۔اےاواے on جولائی 9, 2010 at 12:48 شام

    آپکے بلاگ سے کامپیٹیبیلیٹی محسوس ہوتی ہے اگر اجازت ہو تو تبصرہ کر دیا کرینگے ۔

    جواب دیں

  5. عثمان! کسی دن وقت ملا تو تعارف بھی کروا دوں گا۔ بلاگستان میرے لئے نیا ھے، چیزوں پر قابو پانے میں تھوڑا وقت تو لگے گا نا 🙂

    @Md : پسندیدگی کا شکریہ۔

    جواب دیں

  6. کاش کوئی کسی کے بچے کو مارنے سے پہلے يہ سوچثلے کہ کسی دوسرے کا تھپڑ اسکے بچے کے منہ پر لگے تو دل کتنے ٹکڑوں ميں کٹے گا آپ کو ايک بندے کی اصلاح کا موقع ملا تھا مگر آپ خاموش رہے

    جواب دیں

    • @پھپھے کٹنی : درست فرمایا۔ یہ بھی اس لئے ھوا کے وہ ایک غریب کا بچہ تھا۔ اس کے ماں باپ ساتھ نہیں تھے۔ میں خود اس وقت اچنبے کی کیفیت میں تھا، اصلاح کا خیال تو آیا ہی نہیں۔ ویسے جن اطوار کا وہ بندہ تھا مجھے نہیں لگتا میری ناقص صلاح کچھ کام کرتی۔

      جواب دیں

  7. بانو قدسیہ کی تھیوری کے مطابق رزق حرام پاگل پن کو جنم دیتا ہے۔۔۔
    اپنے اردگرد پھیلتے پاگل پن کو دیکھتے ہوئے یہ کہنے میں حرج نہیں کہ ہم بحیثیت قوم رزق حرام میں گوڈے گوڈے دھنس چکے ہیں۔۔۔

    جواب دیں

    • یہ بھی ایک فیشن بنتا جا رہا ہے۔ پہلے شاید لوگ حرام مال چھپاتے تھے، اب سب کچھ کھل کر سامنے دیکھاتے ہیں۔ گوڈے گوڈے کم بتایا آپ نے، میرے خیال میں گردن گردن تک نوبت آ پہنچی ہے۔

      جواب دیں

      • اور میرا خیال ہے کہ پورے کے پورے ڈوبے ہوئے ہیں اس میں بلکہ غوطے لگا رہے ہیں۔ ہماری قوم میں ذلالت کا کوئی بھی درجہ عبور کر جانے والے ذلیل بڑی وافر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔

  8. The most difficult thing is to find a blog with unique and fresh content but you definitely add value. Bravo.

    جواب دیں

Leave a reply to Jafar جواب منسوخ کریں